اک خاک کا ہوں ذرہ، خورشید کا جگر ہوں |
رہتا زمیں پہ لیکن، گردوں کا ہم سفر ہوں |
تارے ہوں کہکشاں ہوں، جاگیر ہیں یہ اپنی |
اس گلستانِ نو کا، اکلوتا تاج ور ہوں |
روشن ہیں میرے اندر لاکھوں ہزاروں انجم |
شمس و قمر ہیں دھاریں، میں نور کی نہر ہوں |
عصرِ نوی کی ظلمت، مجھ سے ہی دور ہوں گے |
تاریک شب میں کامل، مہ، چودھویں قمر ہوں |
جگنوں کا دل لئے میں روشن جہاں کروں گا |
کم نور یاب لیکن ،آتش فشاں شرر ہوں |
تتلی کے پر لگاۓ میں کائنات گھوموں |
بادِ صبا کا گرچہ نا آشنا سفر ہوں |
پروازِ نو کے آگے ہے گردشِ فلک کیا |
میں ہم نوا ملائک، جبریلی بال و پر ہوں |
تقدیر امتوں کی لکھی گئی ہے جس سے |
میں اس قلم سے نکلا دریائے آبِ زر ہوں |
تاجِ سکندری بھی دستک سی دے رہی ہے |
ادنی وجود میرا ،لیکن میں تاج گر ہوں |
تنکوں کے خوف سے ڈرتا نہیں ہوں میں |
کم سن گو میری ہستی لیکن میں بے خطر ہوں |
یہ بے ضرر ہمالہ ذرہ سمجھ رہا ہے |
اک پھونک سے اڑا دوں اتنا میں بااثر ہوں |
میں جستہ جستہ اک دن پہنچوں گا اپنی منزل |
ہے راہ پر خطر گو، بے خوف ہوں نڈر ہوں |
تابِ جبیں پہ میری دنیا یہ مر مٹے گی |
میں سینۂ جہاں میں ،نایاب ہوں گہر ہوں |
کہنہ خیال ہوں میں دورِ جدید میں بھی |
بے تیغ ہوں اگرچہ لیکن میں کارگر ہوں |
ہر بزم میرے دم سے ہر انجمن کی جاں ہوں |
تزیینِ گلستاں میں کردارِ نامور ہوں |
ہر پھول ہے معطر ہر گل نشاط آور |
آراستہ چمن ہے جس سے، میں وہ شجر ہوں |
آباد ہیں گلستاں سوزِ دروں سے میرے |
بستی ہیں مجھ میں قومیں اسلاف کا نگر ہوں |
میرے نفس سے قائم سارا نظامِ عالم |
جھکتا جہاں ہے گردوں وہ بے نیاز در ہوں |
ہجر و وصال کا میں لیکن حسین سنگم |
عشقِ مجاز سے میں واللہ دربدر ہوں |
عزم و وفا کا پیکر مانندۂ احد ہوں |
ہاں، غزوۂ جہاں میں میؔں حاملِ بدر ہوں |
قدرت نے انقلابی تختے پہ جو لکھا ہے |
تحریر کی جبیں پر پُرنور اک سطر ہوں |
اسلام کی محبت ہرشی سے مجھ کو پیاری |
اسلام کا محافظ اسلام دیدہ ور ہوں |
آباء کی جانثاری کو یاد کر کے ہردم |
ہیں اشک بار نالے اور میں کہ چشمِ تر ہوں |
یہ پوچھتا ہے مجھ سے اسلام کا چمن کہ |
ویرانیوں کا کیوں اب میں آج رہگزر ہوں |
کیا یہ بتادوں دوں اسکو میں ہوں اسیرِ دوراں |
ظالم کے آگے ساکت چپ چاپ سر بسر ہوں |
جاگو ہوا سویرا غفلت کی نیند سے اب |
شامِ سیاہ کا قاتل امیدۓ سحر ہوں |
معدوم میری ہستی خالی وجودِ نم سے |
میں کچھ نہیں ہوں لیکن سب کچھ ہی ہاں مگر ہوں |
یہ سب مری حقیقت واللہ سچ ہیں سارے |
پر دیکھتا ہوں خود کو، جانے کہاں ،کدھر ہوں |
پھر بھی جلایے رکھا امید کی دیا ہے |
مردہ دلوں میں میں کہ روح و رواں عمؔؓر ہوں |
عجمی لباسِ نو میں ہوں شہسوارِ یثرب |
عہدِ جدید میں بھی میں صاحبِ نظر ہوں |
دو چار تارے دیکر بہلا رہے ہو مجھ کو |
کیا منشأِ خدا سے لگتا ہے بے خبر ہوں |
افلاک سے بھی اوپر ہے کاروانِ خاکی |
عالم کے پیش و پس سے ہر چند با خبر ہوں |
تسخیرِ بزمِ عالم ، دنیا کی حکمرانی |
ہے کائنات مقصد گرچہ میں بے ہنر ہوں |
مابین اس جہاں کے جو بھی ہیں سب ہیں میرے |
عزمِ جواں، جواں دل، شاہؔی جو میں اگر ہوں |
معلومات