سحر ایسا ہے ایسی ہیں ہوائیں
بچھی ہیں راستے میں کہکشائیں
میں اب آزاد ہوں اپنی انا سے
میں بھولا ہوں وہ ماضی کی کتھائیں
خوشی اب روح میں جاگی ہے ایسی
زمانے سے اسے کیسے چھپائیں
میں اب اس راہ پر آیا ہوں جس سے
بس آگے کو ہی جاتی ہیں دشائیں
قدم خود سے ہی آگے بڑھ رہے ہیں
میری ہمراہ ہیں کچھ اپسرائیں
بہاریں بھی نہ راس آتی تھیں پہلے
اور اب تو خوبصورت ہیں خزائیں
میرے اندر خلاء تھا اس سے پہلے
میرے باہر ہیں اب ہر سو خلائیں
بہت حیرت سے اب میں سوچتا ہوں
کیوں دیں خود کو میں نے یہ سزائیں

0
53