آنا دہر میں ان کا احسانِ داوری ہے
معراج مومنوں کی اس در پہ حاضری ہے
الطاف مصطفیٰ کے قسمت میں جس کی آئے
اس کو ملی جہاں میں شانِ سکندری ہے
ان کی عطا سے ہوتا اک سیسہ بھی ہے کندن
پارس بنا وہ خارا یہ خیر گر ملی ہے
طاغوتِ کسریٰ غائب ہے راکھ قیصری بھی
ان کی جو نوکری ہے یہ آنِ حیدری ہے
ہیں کبریا سے ان کو سارے کمال درجے
قائم سدا دہر میں ہادی کی برتری ہے
جو کبریا کو بھائی اور کام سب کے آئی
خلقِ عظیم کی وہ توقیرِ دلبری ہے
محمود جھولی خالی آیا ہے ان کے در پر
رحمت حبیبِ رب کی ہر دان بانٹتی ہے

33