لوگ تنہائی کا اتنا جو گِلا کرتے ہیں
سب کے ہاں کیا کوئی مہمان ہوا کرتے ہیں
جو بھی شاعر تری صحبت میں رہا کرتے ہیں
کوئی اچھی سی غزل روز کہا کرتے ہیں
داستاں تیری عیاں چہرے سے ہوتی ہے مگر
ہم بصد شوق کئی بار پڑھا کرتے ہیں
تیرے دیدار کو پائیں ترے ہمراہ رہیں
ہم بہانے تو کئی ڈھونڈ لیا کرتے ہیں
تیرے ہونٹوں کے تبسّم سے جو آتی ہے بہار
دل کے گلشن میں سبھی پھول کھلا کرتے ہیں
بستیاں ہوتی ہیں ویران سبب کچھ تو ہے
ہم سے ربّ تو نہیں ناراض پتا کرتے ہیں
رات دن اپنے ہی کاموں سے جو فرصت نہ ملی
زندگی خاک ہے گر ایسے جیا کرتے ہیں
طارق ان قدرتی آفات سے مل جائے نجات
آؤ ہم مل کے سبھی خاص دُعا کرتے ہیں

0
53