اپنے عمل سے وہ مجھے حیران کر گیا |
پل بھر میں اپنے خواب وہ قربان کر گیا |
نکلا جلا کے پیار کی ساری نشانیاں |
جاتے ہوئے یہ مجھ پہ وہ احسان کر گیا |
وہ لوٹ کر کبھی بھی اب واپس نہ آۓ گا |
وہ جاتے ہوئے گھر سے یہ اعلان کر گیا |
خود غرضیاں تھیں اور کچھ میری انائیں تھیں |
ان خصلتوں کو وہ مری پہچان کر گیا |
مجھ کو لگا کہ سہہ نہیں پائے گا دل میرا |
جو دل نہ کر سکا وہ گریبان کر گیا ۔ ۔ ۔ |
میں اور ہر طرف بچھے تنہائیوں کے جال |
گھر کو وہ میرے ایسے ہی سنسان کر گیا |
معلومات