اپنے عمل سے وہ مجھے حیران کر گیا
پل بھر میں اپنے خواب وہ قربان کر گیا
نکلا جلا کے پیار کی ساری نشانیاں
جاتے ہوئے یہ مجھ پہ وہ احسان کر گیا
وہ لوٹ کر کبھی بھی اب واپس نہ آۓ گا
وہ جاتے ہوئے گھر سے یہ اعلان کر گیا
خود غرضیاں تھیں اور کچھ میری انائیں تھیں
ان خصلتوں کو وہ مری پہچان کر گیا
مجھ کو لگا کہ سہہ نہیں پائے گا دل میرا
جو دل نہ کر سکا وہ گریبان کر گیا ۔ ۔ ۔
میں اور ہر طرف بچھے تنہائیوں کے جال
گھر کو وہ میرے ایسے ہی سنسان کر گیا

0
60