جل گئی بستی تو سب کہتے ہوئے پائے گئے
یہ وہی شعلے ہیں جو پہلے بھی بھڑکائے گئے
چھوڑ دو رہنے بھی دو کیوں پوچھتے ہو بار بار
ہم وہی مضمون ہیں جو بارہا آئے گئے
یہ تعلّق پارسائی کا نہیں قربت کا ہے
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ہَمسائے گئے
اس طرف مجبور و بے بس اس طرف عِزّ و شرف
جو کبھی سوچے نہیں وہ جرم منوائے گئے
روشنی بھی خوب ہے لیکن اندھیرے خوب تر
اس سے بڑھکر اور کیا ہر چیز کے سائے گئے
ہائے اس حسنِ مجسّم کا انوکھا احتجاج
وہ تمہارے کچھ نہ تھے تو ساتھ کیوں لائے گئے
وہ جنہیں گلشن کے حسن و قبح پر تھا اختیار
باغباں آیا تو رنگ و بُو کو ترسائے گئے
پیار ہے چاہت ہے خوشیاں ہیں محبّت ہے یہاں
جھونپڑی میں دیکھ لو آکر جو گنوائے گئے
نفرتوں کے بیج بو کر کیا ملا تجھ کو خطیب
ہم کبھی کافر کبھی کافر وہ ٹھہرائے گئے
سادگی اچھّی ہے لیکن اے امید ایسا بھی کیا
جب بھی دادِ حُسن دی بس تیر برسائے گئے

0
60