زلف اس کی دراز ہوتی ہے
شب ہماری گداز ہوتی ہے
زخم جب بھی لگے ہیں کانٹوں سے
فصلِ گُل چارہ ساز ہوتی ہے
سجدۂ عشق عرش پر پہنچے
تب ہماری نماز ہوتی ہے
جب حرم سامنے ہو سجدے میں
ہر زمیں پھر حجاز ہوتی ہے
جو عبادت قبول ہو جائے
باعثِ فخر و ناز ہوتی ہے
نغمگی گفتگو میں ہے ایسی
اس کی آواز ساز ہوتی ہے
اس سے ملنے کا بار بار اکثر
بس محبّت جواز ہوتی ہے
جب ملاقات تخلیے میں ہو
پھر تو ہر بات راز ہوتی ہے
جو بھی ملنا ہے مل کے رہتا ہے
کب کوئی ساز باز ہوتی ہے
ساتھ میرے کھڑا ہو وہ جب بھی
میری قامت فراز ہوتی ہے
میری یادوں میں وہ نہ ہو طارق
وہ گھڑی شاز شاز ہوتی ہے

0
51