جادۂ ختمِ نبوّت کا امیں رخصت ہؤا
عارضی مسکن سے جنّت کا مکیں رُخصت ہؤا
چلتا تھا جو ساتھ لے کر اپنے سارے ہم نوا
ہائے وہ اطہر مکرّم ساتگیں رخصت ہؤا
حافظِ قُرآن تھا شیخ الحدیث اور مجتہد
چھوڑ کر مِلّت سلیمانی نگیں رُخصت ہؤا
دور رہتا تھا ہمیشہ جھوٹ سے اور خوف سے
تاجدارِ انبیا کا خوشہ چیں رُخصت ہؤا
عاشقِ ختمِ نبوّت کا جلالی رنگ تھا
مصلحت سے دُور وہ خندہ جبیں رُخصت ہؤا
شیر کی للکار تھی اس کی خطابت میں امید
مسندوں کی چیرہ دستی پر غمیں رخصت ہؤا

0
64