کون پہچان پائے انساں کو |
جانے کب مات دے یہ حیواں کو |
آجکل کون یاد رکھتا ہے |
بھول جاتے ہیں لوگ احساں کو |
کب سے وہ دن گئے کہ جب دنیا |
پوچھا کرتی تھی اپنے مہماں کو |
کیا قیامت ہے اور بھی کوئی |
ہے تجسّس یہ چشمِ حیراں کو |
اک تباہی کا ہی نہیں امکاں |
لے کے آئے وہ حشر ساماں کو |
اپنی تر دامنی پہ ناز نہ کر |
کیا ہوا مجھ سے تنگ داماں کو |
پھر سے مل بیٹھیں گے امیر و غریب |
دل میں رکھّو بچا کے ارماں کو |
حادثے یوں بھی ہو ہی جاتے ہیں |
توڑ بیٹھے جو عہد و پیماں کو |
آئی خوشبو تھی ہم نہیں یونہی |
چل دئے اُٹھ کے سب گُلستاں کو |
ہم بھی تقدیر اپنی پوچھیں گے |
جب بھی فرصت ملے گی یزداں کو |
طارق اس سے ہی سیکھ پاؤ گے |
تم جو پڑھ لو قلم کے سلطاں کو |
معلومات