بچپن سے ہی رہی ہے تری جستجو مجھے |
دیدار کی ہمیشہ رہی آرزو مجھے |
آئے گا تب سکوں جو پلائے نگاہ سے |
تسکین دے سکے نہیں جام و سبو مجھے |
سوچا ہے یاد تُجھ کو دلاؤں گا میں کبھی |
بھولی ہے کب جو تُجھ سے ہوئی گفتگو مجھے |
تُجھ سا نہیں ہے کوئی بھی سارے جہان میں |
کافی ہے ایک دیکھنے کو خوبرو مجھے |
پوری وصالِ یار کی خواہش مری جو ہو |
باقی نہیں رہے گی کوئی آرزو مجھے |
میں تیری کائنات ہی کو دیکھتا رہوں |
آتا ہے جب نظر تو یہاں چار سُو مجھے |
میں کامیاب ہوں تو فقط تیرا ہے کرم |
تُو نے ہی امتحاں میں کیا سرخرو مجھے |
مایوس تو ہوا نہیں رحمت سے میں تری |
رہتی ہے یاد آیتِ لا تقنطوا مجھے |
طارق نہ اس کی نعمتوں کا ہو سکے شمار |
حسرت سے یوں نہ دیکھتا ورنہ عدو مجھے |
معلومات