میں ہوں موجود یا ہوں بس گماں میں
میں زندہ ہوں کسی خوابِ رواں میں
مجھے اب ڈھونڈنا ہے ہوں کہاں میں
نشاں ملتا نہیں اب اس مکاں میں
میں مے خانے میں یا کوئے بتاں میں
یوں میری عمر گذری ہے زیاں میں
مجھے دیواریں گھر کی کاٹتی ہیں
لگا دوں آگ اپنے آشیاں میں
بھنور تھا کوئی جس میں عمر گزری
مسلسل میں رہا اک امتحاں میں
سکوں ڈھونڈوں میں مے میں اور دعا میں
میں لٹکا ہوں کہیں پر درمیاں میں
زمیں پر بوجھ بنتا جا رہا ہوں
مجھے اب چل کے رہنا آسماں میں
میں اپنے آپ میں گم ہو گیا ہوں
میں اترا ہوں اب ایسے بیکراں میں
میں آتا ہوں ذرا ٹھہرو نشاں میں
ابھی کچھ تیر باقی ہیں کماں میں

0
47