اپنے کیے پہ کچھ تو ندامت اسے بھی تھی
جس سے یہ لگ رہا تھا محبت اسے بھی تھی
سن تو رہا تھا غور سے الزام جو بھی تھے
چہرے پہ تھا لکھا کہ شکایت اسے بھی تھی
رشتہ تھا اعتماد کا کب ، کیوں بدل گیا !
پتھر تھا ہاتھ میں تو عداوت اسے بھی تھی
جب نفرتیں تھیں بیچ میں پھر کیوں پھنسے رہے
ذہنی غلام تھا میں ضرورت اسے بھی تھی
تھا عمر بھر کا ساتھ اچانک میں مڑ گیا
میں دنگ تھا ذرا ذرا حیرت اسے بھی تھی

52