اپنے کیے پہ کچھ تو ندامت اسے بھی تھی |
جس سے یہ لگ رہا تھا محبت اسے بھی تھی |
سن تو رہا تھا غور سے الزام جو بھی تھے |
چہرے پہ تھا لکھا کہ شکایت اسے بھی تھی |
رشتہ تھا اعتماد کا کب ، کیوں بدل گیا ! |
پتھر تھا ہاتھ میں تو عداوت اسے بھی تھی |
جب نفرتیں تھیں بیچ میں پھر کیوں پھنسے رہے |
ذہنی غلام تھا میں ضرورت اسے بھی تھی |
تھا عمر بھر کا ساتھ اچانک میں مڑ گیا |
میں دنگ تھا ذرا ذرا حیرت اسے بھی تھی |
معلومات