کیسے کہتے ہو زمانے کو خبر ہی نہ ہوئی
اشک بہتے رہے اور آنکھ وہ تر ہی نہ ہوئی
ہم تو انکار بھی کر دیتے محبّت سے مگر
تم نے بات ایسی کہی ہم سے مفر ہی نہ ہوئی
روشنی ہوتی ہے جب آئے افق پر سورج
کیسے ممکن ہے کہ شب گزری ، سحر ہی نہ ہوئی
جب نہیں چاہا مریضوں نے مسیحا سے علاج
پھر وہاں چارہ گری دست نگر ہی نہ ہوئی
ہے قصور اس میں خزاں کا نہ شجر کا کوئی
پیڑ سے شاخ الگ تھی ، با ثمر ہی نہ ہوئی
لوگ ایسے میں سہارا اسے دیتے کیونکر
جو گراں باری کو تیّار کمر ہی نہ ہوئی
طارق انجام تو امّید ہے اچھا ہو گا
فکر تب ہو گی جو رحمت کی نظر ہی نہ ہوئی

27