کیسے کہتے ہو زمانے کو خبر ہی نہ ہوئی |
اشک بہتے رہے اور آنکھ وہ تر ہی نہ ہوئی |
ہم تو انکار بھی کر دیتے محبّت سے مگر |
تم نے بات ایسی کہی ہم سے مفر ہی نہ ہوئی |
روشنی ہوتی ہے جب آئے افق پر سورج |
کیسے ممکن ہے کہ شب گزری ، سحر ہی نہ ہوئی |
جب نہیں چاہا مریضوں نے مسیحا سے علاج |
پھر وہاں چارہ گری دست نگر ہی نہ ہوئی |
ہے قصور اس میں خزاں کا نہ شجر کا کوئی |
پیڑ سے شاخ الگ تھی ، با ثمر ہی نہ ہوئی |
لوگ ایسے میں سہارا اسے دیتے کیونکر |
جو گراں باری کو تیّار کمر ہی نہ ہوئی |
طارق انجام تو امّید ہے اچھا ہو گا |
فکر تب ہو گی جو رحمت کی نظر ہی نہ ہوئی |
معلومات