ایک دن تُجھ کو پڑے گی جو ضرورت میری
تجھ کو یاد آئے گی اُس روز یہ چاہت میری
یوں تکبّر سے مجھے دیکھ کے منہ پھیر نہ تُو
میں تِرا دوست ہوں بدلی نہیں الفت میری
میں ترے کوچہ سے جاؤں گا تو یاد آؤں گا
جب رہے گی نہ ترے سر پہ حفاظت میری
تُجھ کو پیغام عداوت کا محبّت سے دیا
بُغض مٹنے ہی نہیں دیتا ہے نفرت میری
تُو جنہیں اپنا سمجھتا ہے ترے دشمن ہیں
ہے عزیز ان کو مفاد اپنا عداوت میری
کُھل کے آ جائیں گے یہ سامنے تیرے گر تُو
ہوش سے کام لے سُن لے جو ہدایت میری
نظر انداز کیا میں نے انہیں عرصے تک
اب تو برداشت سے باہَر ہوئی طاقت میری
کب تلک ان کے اشاروں پہ چلا جائے گا
وقت ہے اب بھی کہ روکے تجھے دعوت میری
تُو زیاں کار تو ہے سود فراموش نہ بن
کھو کے احساسِ زیاں توڑ نہ ہمّت میری
اے مرے دوست مجھے اپنا تُو دُشمن نہ سمجھ
یہ سمجھ آئینہ دکھلانے کی جرأت میری
تو جو سادہ ہے مری بات ذرا غور سے سُن
جھوٹ بتلاتا ہے تُجھ کو یہ اہانت میری
میرا دل چیر کے دیکھیں تو نظر آئے انہیں
ہر طرف دینِ محمّد سے محبّت میری
طارق اتنا ہی خدا مجھ سے ہے ناراض اگر
کیوں جہاں بھر میں بڑھی جاتی ہے عزّت میری

0
57