نہ دیکھ پائیں گے ہم گر وہ بے نقاب آیا
ہمیں تو وصل کی خواہش سے بھی حجاب آیا
مدد کو آؤ گے کیا تم جو رُوبرو ہوں گے
کسی سوال کا ہم کو نہ گر جواب آیا
ہوا میں جب ہوئی تحلیل اِس کی حدّت سے
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
نہ روک پایا کوئی وقت چند لمحے بھی
نہیں ہے لوٹ کر آخر کبھی شباب آیا
جو مُڑ کے ڈالتے ہیں زندگی پہ ایک نظر
ہمیں تو یوں لگے سوتے میں کوئی خواب آیا
جہاں گیا ہوں قناعت کو ساتھ لے کے گیا
میں حسرتوں کو کہیں راستے میں داب آیا
یہاں سے جاتے ہوئے فکر ہے تو اتنی ہے
کہوں گا جا کے یہ کیسے کہ کامیاب آیا
ہماری زیست یہاں اتنی دیر ہے طارق
کہ بہتے پانی میں بارش کی اک حُباب آیا

0
44