تم سے ملنے اگر گئے ہوتے |
یہ مقدّر سنور گئے ہوتے |
ہم بتوں سے فریب کھا بیٹھے |
ورنہ کیا کیا نہ کرگئے ہوتے |
زندہ رہنا تمہی سے سیکھا ہے |
ورنہ ہم کب کے مر گئے ہوتے |
ایک تم ہی نے روک رکھا ہے |
کب سے ہم اپنے گھر گئے ہوتے |
چپ رہے ہم ادب کے مارے بس |
کیا نہ ہنگامہ کر گئے ہوتے |
ہم نے سیکھی وفا بھی تم سے ہے |
ورنہ کب کے بکھر گئے ہوتے |
تم اگر لیتے امتحاں اپنا |
ہم تو جاں سے گزر گئے ہوتے |
دل پہ کیا کیا نہ پھر گزر جاتی |
دیکھنے اس کو گرگئے ہوتے |
طارق اتنا جو انتظار کیا |
اور تھوڑا ٹھہر گئے ہوتے |
معلومات