تم سے ملنے اگر گئے ہوتے
یہ مقدّر سنور گئے ہوتے
ہم بتوں سے فریب کھا بیٹھے
ورنہ کیا کیا نہ کرگئے ہوتے
زندہ رہنا تمہی سے سیکھا ہے
ورنہ ہم کب کے مر گئے ہوتے
ایک تم ہی نے روک رکھا ہے
کب سے ہم اپنے گھر گئے ہوتے
چپ رہے ہم ادب کے مارے بس
کیا نہ ہنگامہ کر گئے ہوتے
ہم نے سیکھی وفا بھی تم سے ہے
ورنہ کب کے بکھر گئے ہوتے
تم اگر لیتے امتحاں اپنا
ہم تو جاں سے گزر گئے ہوتے
دل پہ کیا کیا نہ پھر گزر جاتی
دیکھنے اس کو گرگئے ہوتے
طارق اتنا جو انتظار کیا
اور تھوڑا ٹھہر گئے ہوتے

3
109
پسندیدگی کاشکریہ رومانہ سید صاحبہ!

0
پسندیدگی کاشکریہ ثاقب محمود صاحب!

0
پسندیدگی کا شکریہ راشد ڈوگر صاحب!

0