یادوں میں مصطفیٰ کی یہ دل مچل رہا ہے
ہے فیض دلربا کا یہ دم جو چل رہا ہے
اُن کی عطا سے مومن حبِ نبی ہے ملتی
ہے عشقِ مصطفیٰ جو نامہ بدل رہا ہے
کب حوس دل میں باقی انعام و زر ہے رہتی
جب فیض مصطفیٰ سے دارین پل رہا ہے
لیکن کٹھن ہیں گھڑیاں ان کے فراق کی دل
حجرِ نبی میں خوں بھی ہر آن جھل رہا ہے
شاید عطائے حب ہے اب انتظار یہ بھی
روتی ہے آنکھ میری اور دل پگل رہا ہے
بے حال در بدر تھا تقدیر کے بھنور میں
آیا کرم ہے ان کا سب کچھ سنبھل رہا ہے
محمود آبرو بھی ان کی عطا ہے سب کو
جن کی عنایتوں سے یہ گردوں چل رہا ہے

102