نقش سارے مٹا کے آیا ہوں
اس کی یادیں بھلا کے آیا ہوں
اک سمندر ہے آنکھ میں باقی
اِیک دریا بہا کے آیا ہوں
جس کو خود پہ غرور ہے، اُس کو
آئینہ اک تھما کے آیا ہوں
عین ممکن ہے وقت کروٹ لے
ایک دنیا جگا کے آیا ہوں
کیوں سمندر کا دل نہیں بھرتا
کتنے دریا گِرا کے آیا ہوں
پیار مجھ سے حساب مانگے گا
کتنے لمحے گنوا کے آیا ہوں
نام ہو یا نہ امر ہو پھر بھی
اپنی ہستی مِٹا کے آیا ہوں
گرچہ آیا ہوں دیر سے مانی
اس کو اپنا بنا کے آیا ہوں

83