ہم ہی نہیں تھے گھر سے تیار ہو کے نکلے
جتنے بھی ہمسفر تھے ہشیار ہو کے نکلے
ہم اس کی رہگزر پر یوں بھی گئے ہیں اکثر
شاید کہ اس گلی سے دلدار ہو کے نکلے
ایسا وہ چارہ گر ہے پہنچے جو اس کے در پر
پا کر شفا دلوں کے بیمار ہو کے نکلے
مایوس ہو چکے تھے ہم اپنی کوششوں سے
صحبت ملی جو اس کی ابرار ہو کے نکلے
صد حیف ہے خرد پر اس سے جنوں ہی بہتر
ہوتے ہوئے جو اس کے اغیار ہو کے نکلے
وہ بانٹتا ہے دلبر خود آ کے گھر خزانے
پھر لفظ کیوں زباں سے انکار ہو کے نکلے
اس باغباں پہ قرباں جس کے لگائے بُوٹے
با برگ و بار ہر سُو اشجار ہو کے نکلے
آواز ہر طرف ہی دینا ہے کام اپنا
آئے گا وہ جو سُن کر سرشار ہو کے نکلے
دنیا کی ہے کہانی جو اس کے پیچھے بھاگے
وہ اور بھی دکھوں سے دوچار ہو کے نکلے
وہ ایک بادشہ ہے جس کی سبھی عطا ہے
جو اس کے گھر گیا وہ شہ وار ہو کے نکلے
جب اس کا ذکر آیا الفاظ منہ سے طارق
شُستہ سی اک غزل کے اشعار ہو کے نکلے

74