اے سمندر تری وسعت ، تری گہرائی کو
کون جانے ترے اندر چھپی سچائی کو
بیٹھ کر میں لبِ ساحل فقط اتنا سوچوں
عمر لگ جائے گی تجھ سے تو شناسائی کو
اپنے اندر تُو سمو لیتا ہے دریاؤں کو
خود کبھی آگے نہیں بڑھتا پذیرائی کو
تجھ سے ملنے کو چلے آتے ہیں جو لوگ یہاں
دور کرنے کو تری آتے ہیں تنہائی کو
تیرے پاتال میں موتی بھی جنم لیتے ہیں
لعل و گوہر بھی یہیں ملتے ہیں شیدائی کو
سر پٹکتی ہوئی موجیں یہ عیاں کرتی ہیں
چاند سے عشق ہوا جاتا ہے سودائی کو
کتنی انسان نے جنگیں ترے سینے پہ لڑیں
بیڑے تیار ہوئے کتنے ہیں چڑھائی کو
بھوکے انسانوں کو تُجھ سے جو غذا ملتی ہے
بن کے بارش تِرا پانی ہے مسیحائی کو
کوکھ سے تیری جنم لیتے ہیں طوفاں لاکھوں
ڈر کے دیکھیں سبھی لی تُو نے جو انگڑائی تو
کون رکھتا ہے تجھے اپنی حدوں میں آخر
دل پریشاں ، پڑی حیرت میں ہے دانائی تو
یونہی طارق نہیں آتی ہے گلوں میں خوشبو
چاہئے جہدِ مسلسل چمن آرائی کو

0
165