ترے نقوش کو تصویر میں اُبھارا گیا |
ترے سُخن تری تحریر کو نکھارا گیا |
قصیدے شان میں تیری بہت سے لکھے گئے |
عطا کئے گئے القاب سے پکارا گیا |
تجھے تو ایک ہی تمغہ تھا باعثِ اعزاز |
وہاں تو مدح کے انبار سے گزارا گیا |
پڑھا کلامِ الٰہی جو سامنے سب کے |
نظر سے دور وہ اب تک نہیں نظارہ گیا |
ہوا تھا روشنی سے علم کی منوّر یوں |
جہاں پہ چاند جو نکلا کہاں ستارا گیا |
ہے پائی دولتِ ایماں تو ہو گیا قائل |
جو آ گیا یہاں واپس نہ وہ دوبارہ گیا |
مگر یہ ملک میں اپنے ہوا ہے کیا تُجھ سے |
کہ تیرے نام کا بینر وہاں پہ پھاڑا گیا |
اگر چراغ تلے ہو اندھیرا کیا کہئے |
ہے میرے ذہن میں ایسا ہی استعارہ گیا |
دیا گیا جو تِرا نام ایک شعبے کو |
اُسے شریروں کے شر سے ہے پھر اتارا گیا |
امیرِ شہر نے تقریر کی تو یہ بھی کہا |
تِرا تو کچھ نہیں جو بھی گیا ہمارا گیا |
یہ تیری شان میں گر جیتے جی ہی ہو جاتا |
سمجھتے ہم نہ جگر تیرا پارہ پارہ گیا |
ہمارے ساتھ ہمیشہ ہی یہ سلوک ہوا |
جہاں جہاں گیا طوفاں وہاں کنارا گیا |
جہان کیا بھلا طارق اُسے سمجھ پائے |
اُسے تھا علم کے انوار سے سنوارا گیا |
معلومات