ترے نقوش کو تصویر میں اُبھارا گیا
ترے سُخن تری تحریر کو نکھارا گیا
قصیدے شان میں تیری بہت سے لکھے گئے
عطا کئے گئے القاب سے پکارا گیا
تجھے تو ایک ہی تمغہ تھا باعثِ اعزاز
وہاں تو مدح کے انبار سے گزارا گیا
پڑھا کلامِ الٰہی جو سامنے سب کے
نظر سے دور وہ اب تک نہیں نظارہ گیا
ہوا تھا روشنی سے علم کی منوّر یوں
جہاں پہ چاند جو نکلا کہاں ستارا گیا
ہے پائی دولتِ ایماں تو ہو گیا قائل
جو آ گیا یہاں واپس نہ وہ دوبارہ گیا
مگر یہ ملک میں اپنے ہوا ہے کیا تُجھ سے
کہ تیرے نام کا بینر وہاں پہ پھاڑا گیا
اگر چراغ تلے ہو اندھیرا کیا کہئے
ہے میرے ذہن میں ایسا ہی استعارہ گیا
دیا گیا جو تِرا نام ایک شعبے کو
اُسے شریروں کے شر سے ہے پھر اتارا گیا
امیرِ شہر نے تقریر کی تو یہ بھی کہا
تِرا تو کچھ نہیں جو بھی گیا ہمارا گیا
یہ تیری شان میں گر جیتے جی ہی ہو جاتا
سمجھتے ہم نہ جگر تیرا پارہ پارہ گیا
ہمارے ساتھ ہمیشہ ہی یہ سلوک ہوا
جہاں جہاں گیا طوفاں وہاں کنارا گیا
جہان کیا بھلا طارق اُسے سمجھ پائے
اُسے تھا علم کے انوار سے سنوارا گیا

3
150
عامر رضا حاتم صاحب پسندیدگی کا بہت شکریہ نوازش

0
کیا خوب کہا واہ

بہت شکریہ منیب صاحب! ممنون ہوں

0