ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے |
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے |
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں |
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے |
وصفِ مے اور صفتِ یار کے مضموں کے سوا |
ناصحا تیرے سخن یاد نہیں ہونے کے |
یارِ بد عہد کا کتنا بڑا احساں ہے کہ ہم |
اب کسی کے لئے برباد نہیں ہونے کے |
اس جفا جُو کو دعا دو کہ اگر وہ نہ رہا |
پھر کسی سے ستم ایجاد نہیں ہونے کے |
آج پھر جشن منایا گیا آزادی کا |
کل گھروں پر کئی افراد نہیں ہونے کے |
اتنے آرام طلب ہو تو محبت میں فراز |
مِیر بن جاؤ گے فرہاد نہیں ہونے کے |